میرا ایک بچپن کا دوست ہے

Syed Ahsan AaS

میرا ایک بچپن کا دوست ہے

میرا ایک بچپن کا دوست ہے جو میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں میں رہتا ہے۔ اس کو بزرگوں، قلندروں اور مجذوبوں سے ملنے کا بہت شوق ہے۔ میں جب بھی کبھی چھٹیوں میں گاؤں جاتا ہوں تو اس نے نئے ملنے والے بزرگوں کی لسٹ بنائی ہوتی ہے اور ہر بزرگ کی کرامات بھی اسے ازبر ہوتی ہیں۔

ایک بار جو میں گاؤں گیا تو وہ ایک مجذوب کی بہت زیادہ تعریفیں کر رہا تھا کہ وہ بہت کمال کے بزرگ ہیں۔ وہ ننگی تلوار ہیں، ان کے منہ سے جو بھی نکل جاتا وہ پورا ہو جاتا ہے۔ وہ ان کی بہت ساری باتیں کر رہا تھا۔ اس نے مجذوب بابا کی اتنی باتیں کیں کہ ان سے ملنے کی تڑپ میرے اندر بہت بڑھ گئی اور اگلے ہی دن میں اس کی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھا اس مجذوب کی طرف جا رہا تھا۔ میرا دوست بابا جی کی باتیں نان سٹاپ کرتا جا رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ بابا جی ملتان والی سائیڈ کے رہنے والے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 80 سال کے قریب ہے۔ چالیس سال پہلے گھر بار اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی۔ اپنے مرشد کے عشق میں کافی عرصہ ان کے ساتھ گزارا۔ بیس سال پہلے مرشد وفات پا گئے تو یہ گاؤں گاؤں گھومنے والے فقیروں میں شامل ہو گئے۔ گھومتے گھومتے یہ فقیروں کا گروپ چند دن یہاں ٹھہرا تو یہ بابا جی کی ٹانگ میں زخم بہت خراب ہو گیا تھا۔ اس گاؤں میں کمپوڈر ڈاکٹر نے بابا جی کی پٹی کی تو ڈاکٹر کی دکان سارا دن مریضوں سے بھری رہی تو ڈاکٹر کو بابا جی سے بہت پیار ہو گیا ۔

بابا جی کو ڈاکٹر صاحب نے منت سماجت کر کے علاج کے بہانے یہاں رکھ لیا۔ کیونکہ بابا جی کی ٹانگ کی حالت بہت خراب تھی جس کی وجہ سے بابا جی کا چلنا بھی مشکل تھا۔فقیروں نے بابا جی کو یہیں چھوڑا اور وہ چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب دن رات بابا جی کی مرہم پٹی کرتا رہا۔ اسی دوران ڈاکٹر صاحب کا کلینک خوب چلنے لگا۔ گاؤں کے ایک آدمی کی بیوی کو مرگی کی بیماری تھی جو بابا کی وجہ سے مرگی سے شفا پا گئی۔ اس عورت کی شفایابی کے بعد بہت سارے لوگوں نے بابا جی کے پاس آنا شروع کر دیا لیکن بابا جو بہت موڈی تھے، لہر میں آ گئے تو دیکھ لیا ورنہ کسی کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ جس آدمی کی بیوی کو شفا ملی، بابا جی اس کی بیٹھک نما گھر میں قیام فرما تھے۔ اس گاؤں میں ستر فیصد آبادی روحانیت کیخلاف تھی۔ بہت کم بابا جی کی عزت کرتے، اطراف کے اکثر دیہات میں بابا جی کی شہرت آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔ بزرگوں کو ماننے والوں کو پتہ چلتا تو عقیدت سے ملنے آتے تو گاؤں کا وہ طبقہ جو بزرگوں کیخلاف تھا وہ اکثر اعتراض اور آنیوالوں کو تنگ کرتے۔

میرے دوست نے بابا جی کے پاؤں کی طرف بیٹھ کر ان کی ٹانگ اور پاؤں کو دبانا شروع کر دیا۔ میرے دوست کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ بابا جی کا بہت زیادہ عقیدت ہے کیونکہ اس کی آنکھوں، چہرے اور دبانے کے انداز سے بے پناہ عقیدت کا اظہار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر توبابا جی اسی طرح ہی بیٹھتے رہے۔ پھر انہوں نے ہماری طرف کروٹ لی تو میرے دوست نے انہیں ادب سے اسلام کیا اور میرا تعارف بھی کرایا کہ پروفیسر صاحب آپ سے مری سے ملنے آئے ہیں۔بابا جی مری کے نام سے تھوڑے سے چوکنے ہو گئے اور بابا لال شاہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب کا ذکر بڑے احترام سے کرنے لگے۔ بابا جی کا قد تقریباً ساڑھے چھ فٹ کے قریب لگ رہا تھا۔ جوانی میں یقیناً مضبوط اور پہلوانوں والا جسم ہوتا ہو گا۔ بابا جی کی داڑھی مبارک، سر کے بال اور جسم کے خدوخال سے لگ رہا تھا کہ بابا جی نے سالوں سے اپنا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ بابا جی کا جسم اور کپڑے واضح طور پر عدم توجہ کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک عجیب سی بے ترتیبی اور پراسراریت کا احساس ہو رہا تھا۔

بابا جی کے پورے سراپے سے ایک مخصوص تاثر ابھر رہا تھا کہ بابا جی نارمل انسان نہیں لگ رہے تھے۔ ان میں کوئی انوکھی بات یا کشش تھی جو مدمقابل کو اپنے سحر میں لے لیتی تھی۔ وہ نارمل اور ابنارمل کا عجیب امتزاج نظر آ رہے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں میں روحانیت اور ہیبت کا پراسرار تاثر ابھر رہا تھا۔ میں ان کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے جب غور سے میری آنکھوں میں جھانکا تو میرے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور مجھے لگ رہا تھا کہ ان میں کچھ خاص ہے۔ میرا دوست بابا جی کو دبا رہا تھا اور میں دونوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک دو دیہاتی لڑکے اندر آئے۔ ان میں سے ایک بہت غصے میں لگ رہا تھا۔ اس نے سونے کی انگوٹھیاں اور گلے میں سونے کی چین پہنی ہوئی تھی۔ وہ پان کھا رہا تھا۔ گلے میں سونے کے کئی لاکٹ پہنے ہوئے تھے۔ بوسکی کا سلکی سوٹ ہاتھ میں راڈو کی گھڑی پاؤں میں زری کا سنہرا کھسہ پہنا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر تکبر اور غرور کے واضح تاثرات تھے۔ ایسے لوگ دیہات میں اکثر ہوتے ہیں۔ وہ یقیناً کسی چودھری یا بڑے زمیندار کی اولاد تھا جو گاؤں

کے غریبوں کو اپنے غلام سمجھتے ہیں۔ جس موٹر سائیکل پر ہم لوگ آئے تھے، وہ ہم دروازے کے باہر کھڑا کر آئے تھے۔ اس کا غصہ تھا کہ اس موٹر سائیکل نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا ہے۔ اصل میں بہانہ بنا کر بابا جی یا ہماری بے عزتی کرنا چاہ رہا تھا۔ اسی دوران جو دیہاتی چائے لینے گیا تھا وہ بھی چائے پیالے میں لے کر آ گیا۔ اس نے آتے ہی اس لڑکے سے معافی مانگی کہ جناب مہمان آئے ہیں، ان کی موٹر سائیکل ہے، آئندہ ایسی غلطی پھر نہیں ہو گی۔ لیکن وہ جوان ماننے کے بجائے معاملے کو طول دے رہا تھا۔ اب وہ ہم دونوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا’’ جناب آپ تو پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ اس پاگل بڈھے کے پاس کیا لینے آئے ہیں۔ جس بڈھے کو اپنی خبر اور ہوش نہیں ہے، وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔ بڈھا بہت بڑا ڈرامہ باز ہے۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، آپ اپنا وقت یہاں کیوں برباد کرنے آئے ہیں‘‘میرے دوست نے اس نوجوان سے نرمی سے کہا ’’ جناب یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ ہماری جو مرضی کریں، آپ کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے‘‘

ہ بات اس نوجوان کو بہت ناگوار گزری بلکہ اس کی شان میں شاید کوئی گستاخی ہو گئی ہو، وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اب وہ بابا جی سے مخاطب ہوا اور بولا ’’او پاگل بڈھے تجھے اپنی خبر تو ہے نہیں دوسروں کو کیوں بے وقوف بناتا ہے‘‘ میرا دوست پھر بولا’’ بابا بہت بڑی ہستی ہیں۔ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں‘‘نوجوان انتہائی حقارت آمیز لہجے میں بولا ’’بڈھے میرے بارے میں کوئی بات بتا، تاکہ میں بھی تجھے مان جاؤں‘‘۔بابا جی آرام سے لیٹے ہوئے تھے۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر بابا جی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اٹھا دیا۔ بابا جی اٹھ کر بیٹھ گئے۔ جاہل نوجوان باز نہیں آ رہا تھا۔ اچانک بابا جی بولے اور کہا ’’کیا میں تم کو نہیں جانتا۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تو جس سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ کسی اور سے شادی کرے گی اور تو اتنا مجبور ہو گا کہ اس شادی کو روک نہیں پائے گا۔ تیری زندگی میں یہ تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو کچھ بھی نہیں کر پائے گا‘‘نوجوان تھوڑا سا گھبرا گیا لیکن وہ اب بھی ہمت ہارنے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے ایک اور وار کیا اور کہا ’’

اگر تم یہ بتا دو کہ میری منگیتر کا نام کیا ہے تو میں یہ اپنی راڈو گھڑی تم کو ابھی انعام میں دے دوں گا‘‘۔بابا جی پورے آن ہو چکے تھے، وہ بولے ’’اس لڑکی کا نام، اس کی ماں، باپ کا اور تمہارے ماں باپ کا یہ نام ہے اور کتے بے غیرت تو اس سے پہلے اس نام کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا‘‘۔ بابا جی نان سٹاپ بولے جا رہے تھے۔ اس کے گندے کرتوتوں اور گناہوں کو سب کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں کرتے جا رہے تھے۔ پورے ماحول پر سناٹا طاری تھا۔ نوجوان کے چہرے سے تکبر، غرور غائب ہو چکا تھا بلکہ اب وہ شدید پریشان اور شرمندہ نظر آ رہا تھا۔ بابا جی ایک دم اٹھے اور آسمان کی طرف منہ کر کے گھورنے لگے کچھ ایسی باتیں ان کے منہ سے نکل رہی تھیں جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ وہ آسمان کی طرف منہ کر کے سورج کو گھور رہے تھے۔ بابا جی صحن میں موجود تمام لوگوں سے بے خبر سورج اور اللہ تعالٰی کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ بابا جی کا ٹرانسفارمر مکمل طور پر آن ہو چکا تھا۔ ۔ بابا جی کا میزبان اس نوجوان کو پکڑ کر باہر چھوڑ آیا

جو بہت شرمندہ اور گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کو باہر نکالنے کے بعد وہ ہمارے قریب آ گیا اور بولا ’’اسوقت بابا فل جلال میں ہیں۔ اب بابا جی دو دھاری ننگی تلوار ہیں۔ اب یہ جو کچھ بھی کہیں گے، وہ پورا ہو گا‘‘۔ بابا جی جس حالت میں تھے، وہ لفظوں میں نہیں بتائی جا سکتی۔ پتہ نہیں وہ رب ذوالجلال کے ساتھ کیا شکوے کر رہے تھے۔ کبھی اشارے کرتے، کبھی بے ربط گفتگو کرتے۔ پتہ نہیں وہ غصے میں تھے کہ جلال میں، بہرحال وہ نارمل نہیں لگ رہے تھے۔ بابا جی ایک گھنٹے سے زائد اسی حالت میں رہے۔ پھر تقریباً بے جان ہو کر گرنے لگے تو دیہاتی نے ان کو پکڑ کر چارپائی پر لٹا دیا اور ان کے اوپر گرم چادر ڈال دی اور ہمیں اشارے سے کہا کہ آپ لوگ باہر آ جاؤ، لہٰذا ہم لوگ بھی جو سکتے کے عالم تھے، بابا جی کو عقیدت اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر آ گئے۔ کچھ دیر اس دیہاتی سے باتیں کرنے کے بعد ہم لوگ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔

بعد میں پتہ چلا کہ اس نوجوان نے کسی کو قتل کر دیا اور وہ جیل چلا گیا۔وہ جیل میں ہی تھا تو اس کی منگیتر کی شادی کسی اور کے ساتھ کر دی گئی۔ اس نوجوان نے بابا جی کے پاس اپنے والدین کو معافی کیلئے بھیجا اور خود بھی بار بار معافی کا پیغام بھیجا۔ جیل میں اس سے ملنے جو بھی جاتا تو وہ رو رو کر ایک ہی بات کرتا کہ مجھے بابا جی سے معافی دلا دیں۔ میں نے ایک درویش سے بدتمیزی کی ہے۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ اور نادم تھا لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

Comments